تحریک انصاف کے احتجاج کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر اسلام آباد اور پنجاب پولیس کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق، اسلام آباد پولیس نے ڈان ٹی وی کے ایک صحافی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، جب کہ صحافیوں کے موبائل فون بھی ضبط کر لیے گئے۔
راولپنڈی کے علاقے ڈھوک کالا خان میں کوریج کرنے والے صحافی طاہر نصیر سے سب انسپکٹر نے کارڈ دیکھنے کے بہانے پرس چھین لیا، اور اس کے بعد صحافی کو تھپڑ مارے۔ پاس کھڑے ایک کانسٹیبل نے بھی بندوق کے بٹ سے حملہ کر دیا۔ ان واقعات کے دوران اسلام آباد اور راولپنڈی میں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان جھڑپیں بدستور جاری ہیں۔
اسی دوران، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا قافلہ اسلام آباد سے 65 کلومیٹر دور کٹی پہاڑی پر پہنچ چکا ہے، جہاں پولیس نے مظاہرین پر شیلنگ کی۔ پی ٹی آئی کے پشاور سے آنے والے قافلے پر اٹک پولیس کی جانب سے پل کے اوپر اور پہاڑی کی بلندی سے شیلنگ کی گئی، جس کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں اور علاقہ میدان جنگ بن گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ علی امین گنڈاپور کے قافلے پر ہیلی کاپٹر سے شیلنگ کی جا رہی ہے، اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے سامنے آ کر کہا کہ جو مارنا چاہتا ہے، سامنے سے گولی مارے۔
ڈی چوک میں پی ٹی آئی کارکنان کی گرفتاریاں جاری ہیں، اور حکومت نے پی ٹی آئی کے 1590 کارکنوں کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے ہیں۔ عمران خان کی بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان بھی ڈی چوک سے گرفتار کر لی گئی ہیں، جنہیں ویمن تھانہ سیکرٹریٹ منتقل کر دیا گیا ہے۔ پنجاب کے چار شہروں میں دفعہ 144 نافذ کرکے رینجرز کو طلب کر لیا گیا ہے