پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آئینی ترمیم پر ووٹنگ کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ پارٹی کی سیاسی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو اراکینِ قومی اسمبلی یا سینیٹ پی ٹی آئی کی پالیسی کے خلاف رائے شماری میں حصہ لیں گے، ان کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ "مینڈیٹ چور حکومت اور اس کے سرپرست آئینی ترامیم کے ذریعے ملک میں جمہوریت کو ختم کر رہے ہیں اور جنگل کا قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں"۔
پی ٹی آئی نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین کی رہائشگاہوں کے باہر پرامن دھرنے دیے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے کارکنان اس پالیسی کی روگردانی کرنے والے اراکین کے خلاف احتجاج کریں گے، چاہے وہ سینیٹ یا قومی اسمبلی میں کسی بھی طرح رائے شماری میں شامل ہوں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ دو سینیٹرز زرقا تیمور اور فیصل سلیم پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ "ہم مولانا فضل الرحمٰن سے رابطے میں ہیں، لیکن اس ترمیم کی جلدی کیا ہے؟ دو دن مزید گزر جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔"
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن ایک زیرک سیاستدان ہیں اور انہیں یقین ہے کہ مولانا اس ترمیم کو رکوا سکتے ہیں۔ کھوسہ نے مزید کہا کہ حکومت کو دو تہائی اکثریت ثابت کرنی ہوگی، اور اگر حکومت کے پاس نمبرز پورے ہوتے تو اب تک ترمیم منظور کر چکی ہوتی۔
پی ٹی آئی کے اس احتجاجی فیصلے کے بعد سیاسی ماحول مزید گرم ہوتا نظر آ رہا ہے، اور آئینی ترمیم پر ہونے والی ووٹنگ میں مزید تاخیر کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔